EN हिंदी
داستاں کیا تھی اور کیا بنا دی گئی | شیح شیری
dastan kya thi aur kya bana di gai

غزل

داستاں کیا تھی اور کیا بنا دی گئی

سحر محمود

;

داستاں کیا تھی اور کیا بنا دی گئی
کچھ گھٹا دی گئی کچھ بڑھا دی گئی

کر کے تجدید عہد وفا دل نشیں
قید کی اور مدت بڑھا دی گئی

جاں ہتھیلی پہ لے کر پہنچ ہی گئے
اہل دل کو جہاں بھی صدا دی گئی

ربط باہم وہ پہلے سا باقی نہیں
کیسی صورت جہاں کی بنا دی گئی

چشم حق بیں میں دنیا یہ کچھ بھی نہیں
صرف آنکھوں میں دل کش بنا دی گئی

بھول پانا انہیں اب تو ممکن نہیں
دل میں کیسی یہ صورت بسا دی گئی

کھو گئے کن خیالوں میں تم اے سحرؔ
محفل جان و دل تو سجا دی گئی