داستاں کہہ کے پریشاں دل ناکام نہ ہو
اس خموشی میں بھی پنہاں کوئی پیغام نہ ہو
عشق میں بھی ہے تقاضا مری خودداری کا
جو مرے دل کو ملی ہے وہ خلش عام نہ ہو
مانگنے ہی کا طریقہ نہیں آتا ہم کو
غیر ممکن ہے تری چشم کرم عام نہ ہو
پھول کے سائے میں کانٹوں کو بھی رہنے دیجے
صبح کی قدر نہ کی جائے اگر شام نہ ہو
حد سے جو چیز بھی بڑھتی ہے بدل جاتی ہے
کس طرح میری وفاؤں کا جنوں نام نہ ہو
آج کیوں ہاتھ ترے کانپ رہے ہیں ساقی
دیکھ تو خون غریبوں کا تہہ جام نہ ہو
کون ایسا ہے جو دنیا کی زباں کو روکے
میں نے مانا کہ مرے لب پہ ترا نام نہ ہو
جلوۂ حسن نمایاں ہے ہر اک ذرے سے
کیا کیا جائے اگر ذوق نظر عام نہ ہو
کار دنیا میں لگے رہتے ہیں ہم اے شاربؔ
شاعری اس کے لئے ہے جسے کچھ کام نہ ہو
غزل
داستاں کہہ کے پریشاں دل ناکام نہ ہو
شارب لکھنوی