داستان غم تجھے بتلائیں کیا
زخم سینے کے تجھے دکھلائیں کیا
سوچتے ہیں بھول جائیں سرزنش
مدتوں کی بات اب جتلائیں کیا
لوگ اس کی بات تو سنتے نہیں
خضر کو جنگل سے ہم بلوائیں کیا
روز تم وعدہ نیا لے لیتے ہو
پاس ان وعدوں کا ہم رکھ پائیں کیا
مفلسی نے جا بجا لوٹا ہمیں
اب بچا کچھ بھی نہیں لٹوائیں کیا
غزل
داستان غم تجھے بتلائیں کیا
بابر رحمان شاہ