داستان غم ہم نے کہہ بھی دی تو کیا ہوگا
اور بڑھ گئی دل کی بے کلی تو کیا ہوگا
عمر رفتہ کے قصے دوستو نہ دہراؤ
کوئی یاد خوابیدہ جاگ اٹھی تو کیا ہوگا
زندگی تو اپنی ہے لٹ گئی تو پھر کیا غم
غم تری امانت ہے چھن گئی تو کیا ہوگا
درد سے سنواری ہے روح زندگی ہم نے
درد کو نہ راس آئی زندگی تو کیا ہوگا
غزل
داستان غم ہم نے کہہ بھی دی تو کیا ہوگا
صوفی تبسم