دانتوں سے جبکہ اس گل تر کے دبائے ہونٹھ
بولا کہ صاحب اپنے سے سمجھو پرائے ہونٹھ
اس غیر قمر کے اگر دیکھ پائے ہونٹھ
لعل یمن بھی رشک سے اپنا چبائے ہونٹھ
پھولوں سے اس کے جبکہ چمن میں ملائے ہونٹھ
نازک زیادہ رگ سے سمن کے بھی پائے ہونٹھ
سمجھا میں خضر چشمہ آب حیات ہوں
ہونٹھوں سے میرے اس نے جو اپنے ملائے ہونٹھ
مانگا جو بوسہ یار سے میں نے شب وصال
از خود مزے میں آ کے مرے کاٹ کھائے ہونٹھ
کیا کیا صفت زبان سے سوسن کی بھی سنی
مل کر مسی چمن میں جو اس نے دکھائے ہونٹھ
سرخی نے ان لبوں کی کیا عاشقوں کا خون
لالی جمی جو پٹ کے تو کیا رنگ لائے ہونٹھ
ہونٹھوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے
کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ
پانی بھر آئے مصریوں کے منہ میں وقت دید
شیریں کی رال ٹپکے جو وہ دیکھ پائے ہونٹھ
دم آ گیا لبوں پہ یہ ڈہکایا یار نے
سو بار پاس ہونٹھوں کے لا کر ہٹائے ہونٹھ
شیریں لبی تو دیکھنا وہ نیشکر بنی
قلیاں کی نے سے اس نے جو اپنے لگائے ہونٹھ
بوسے دہن کے اس کے نہیں بھولتے قلقؔ
کہتا ہوں ہائے دانت کبھی گاہ ہائے ہونٹھ
غزل
دانتوں سے جبکہ اس گل تر کے دبائے ہونٹھ
ارشد علی خان قلق