دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے
آگ کا دریا پار بڑی آسانی سے ہو جاتا ہے
حد نظر تک اک تنہائی خاک اڑاتی پھرتی ہے
صحرا بے بس اپنی ہی ویرانی سے ہو جاتا ہے
جتنی عمر سرابوں کا پیچھا کرنے میں گزرتی ہے
اتنا گہرا پیاس کا رشتہ پانی سے ہو جاتا ہے
گھر سے نکلنا بھی مشکل ہے گھر میں رہنا بھی مشکل ہے
کیسا موسم بارش کی من مانی سے ہو جاتا ہے
رونے سے دل ہلکا تو ہو جاتا ہے لیکن سوچو
وہ نقصان جو اشکوں کی ارزانی سے ہو جاتا ہے
جھیل کی گہری خاموشی بھی ہوتی ہے مشکوک مگر
دریا رسوا موجوں کی طغیانی سے ہو جاتا ہے
غزل
دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے
بھارت بھوشن پنت