EN हिंदी
دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے | شیح شیری
danista jo ho na sake nadani se ho jata hai

غزل

دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے

بھارت بھوشن پنت

;

دانستہ جو ہو نہ سکے نادانی سے ہو جاتا ہے
آگ کا دریا پار بڑی آسانی سے ہو جاتا ہے

حد نظر تک اک تنہائی خاک اڑاتی پھرتی ہے
صحرا بے بس اپنی ہی ویرانی سے ہو جاتا ہے

جتنی عمر سرابوں کا پیچھا کرنے میں گزرتی ہے
اتنا گہرا پیاس کا رشتہ پانی سے ہو جاتا ہے

گھر سے نکلنا بھی مشکل ہے گھر میں رہنا بھی مشکل ہے
کیسا موسم بارش کی من مانی سے ہو جاتا ہے

رونے سے دل ہلکا تو ہو جاتا ہے لیکن سوچو
وہ نقصان جو اشکوں کی ارزانی سے ہو جاتا ہے

جھیل کی گہری خاموشی بھی ہوتی ہے مشکوک مگر
دریا رسوا موجوں کی طغیانی سے ہو جاتا ہے