دانے کے بعد کچھ نہیں دام کے بعد کچھ نہیں
صبح کے بعد شام ہے شام کے بعد کچھ نہیں
خواب کا آخری خمار آنکھ میں ہے کچھ انتظار
نیند ذرا سا کام ہے کام کے بعد کچھ نہیں
خاک خراب ہوں زمیں تو مرا ماجرا نہ سن
نقش کے بعد نام تھا نام کے بعد کچھ نہیں
شہر کی حد بھی ماپ لی شام بھی دل پہ چھاپ لی
ایک چراغ اور ایک بام کے بعد کچھ نہیں
وصل گیا تو ہجر تھا ہجر گیا تو کچھ نہ تھا
خاص کے بعد عام ہوں عام کے بعد کچھ نہیں
جسم کا نشہ پی چکے اپنی طرف سے جی چکے
چلیے کہ جام الٹ چکا جام کے بعد کچھ نہیں

غزل
دانے کے بعد کچھ نہیں دام کے بعد کچھ نہیں
شاہین عباس