دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں
سایوں کے انتظار میں شب بھر کھڑا ہوں میں
کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مری
کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں
پھیلا ہوا ہے سامنے صحرائے بے کنار
آنکھوں میں اپنی لے کے سمندر کھڑا ہوں میں
سناٹا میرے چاروں طرف ہے بچھا ہوا
بس دل کی دھڑکنوں کو پکڑ کر کھڑا ہوں میں
سویا ہوا ہے مجھ میں کوئی شخص آج رات
لگتا ہے اپنے جسم سے باہر کھڑا ہوں میں
اک ہاتھ میں ہے آئینۂ ذات و کائنات
اک ہاتھ میں لیے ہوئے پتھر کھڑا ہوں میں
غزل
دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں
سالم سلیم