داغ جو اب تک عیاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
فاصلے جو درمیاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
ایک مدت سے دلوں میں درد کی ہیں بستیاں
درد کی جو بستیاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
رات بھر سویا نہیں میں بس اسی اک فکر میں
ان سنی کچھ سسکیاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
کس طرح رشتوں میں آئی تلخیاں یہ پھر کجی
بے سبب جو تلخیاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
شمع کل جلتی رہی ہے دیر تک اس سوچ میں
کچھ اندھیرے بے زباں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
جو پرانے تھے گنہ وہ دھو دیئے تو نے مگر
خون کے تازہ نشاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
میں غموں کے بادلوں کی بات اب کرتا نہیں
خوف کے جو آسماں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
غزل
داغ جو اب تک عیاں ہیں وہ بتا کیسے مٹیں
شیو کمار بلگرامی