داغ دل چمکا تو غم پیدا ہوا
یہ اندھیرا صبح دم پیدا ہوا
میں ہوں وہ گم گشتۂ راہ طلب
میری ہستی سے عدم پیدا ہوا
ہو گئی ہر ایک بیشی میں کمی
جب خیال بیش و کم پیدا ہوا
ان کے آنے کی خوشی کیا چیز تھی
اس خوشی سے اور غم پیدا ہوا
مے کدے میں شیخ بھی آیا اگر
گردن مینا میں خم پیدا ہوا
حسن میں تخلیق کا جوہر بھی ہے
اس کے ''میں'' کہنے سے ''ہم'' پیدا ہوا
یاد ان کی یوں رفیق راہ تھی
ہر قدم پر ہم قدم پیدا ہوا
کیا کہیں ہم اس ادائے خاص کو
ہر کرم سے اک ستم پیدا ہوا
مرگ کا کچھ بھی نہ تھا اے جوشؔ غم
ان کے وعدے سے یہ غم پیدا ہوا
غزل
داغ دل چمکا تو غم پیدا ہوا
جوشؔ ملسیانی