EN हिंदी
داد تو بعد میں کمائیں گے | شیح شیری
dad to baad mein kamaenge

غزل

داد تو بعد میں کمائیں گے

جواد شیخ

;

داد تو بعد میں کمائیں گے
پہلے ہم سوچنا سکھائیں گے

میں کہیں جا نہیں رہا لیکن
آپ کیا میرے ساتھ آئیں گے

کوئی کھڑکی کھلے گی رات گئے
کئی اپنی مراد پائیں گے

کھل کے رونے پہ اختیار نہیں
ہم کوئی جشن کیا منائیں گے

ہنسیں گے تیری بد حواسی پر
لوگ رستہ نہیں بتائیں گے

تم اٹھاؤ گے کوئی رنج مرا
دوست احباب حظ اٹھائیں گے

ہمیں اپنی تلاش میں مت بھیج
کھڑی فصلیں اجاڑ آئیں گے