EN हिंदी
چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا | شیح شیری
chur tha zaKHmon se dil zaKHmi jigar bhi ho gaya

غزل

چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا

حبیب جالب

;

چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا
اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا

لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے
اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا

بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم
یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا

اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا