EN हिंदी
چرا کے میرے طاق سے کتاب کوئی لے گیا | شیح شیری
chura ke mere taq se kitab koi le gaya

غزل

چرا کے میرے طاق سے کتاب کوئی لے گیا

حمید الماس

;

چرا کے میرے طاق سے کتاب کوئی لے گیا
مری تمام عمر کا حساب کوئی لے گیا

یہ واقعہ ہے جب لٹی مرے چمن کی آبرو
لرزتی شاخ رہ گئی گلاب کوئی لے گیا

وہی تو اک ذریعۂ نجات میرے پاس تھا
مگر مرے ضمیر کا ثواب کوئی لے گیا

سوال بن کے روبرو کھڑی ہوئی تھی زندگی
مرا لہو نچوڑ کر جواب کوئی لے گیا

مرے بدن میں چبھ رہی تھیں سوئیاں سی رات بھر
سحر ہوئی تو لطف اضطراب کوئی لے گیا

چھپا لیا ہے میں نے سارا درد اپنی روح میں
تسلیوں کا ظاہری نقاب کوئی لے گیا