چرا کے میرے طاق سے کتاب کوئی لے گیا
مری تمام عمر کا حساب کوئی لے گیا
یہ واقعہ ہے جب لٹی مرے چمن کی آبرو
لرزتی شاخ رہ گئی گلاب کوئی لے گیا
وہی تو اک ذریعۂ نجات میرے پاس تھا
مگر مرے ضمیر کا ثواب کوئی لے گیا
سوال بن کے روبرو کھڑی ہوئی تھی زندگی
مرا لہو نچوڑ کر جواب کوئی لے گیا
مرے بدن میں چبھ رہی تھیں سوئیاں سی رات بھر
سحر ہوئی تو لطف اضطراب کوئی لے گیا
چھپا لیا ہے میں نے سارا درد اپنی روح میں
تسلیوں کا ظاہری نقاب کوئی لے گیا

غزل
چرا کے میرے طاق سے کتاب کوئی لے گیا
حمید الماس