چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
دل ڈوبنے لگا تو ابھارا کبھی کبھی
ہر چند اشک یاس جب امڈے تو پی گئے
چمکا فلک پہ ایک ستارا کبھی کبھی
میں نے تو ہونٹ سی لیے اس دل کو کیا کروں
بے اختیار تم کو پکارا کبھی کبھی
زہر الم کی اور بڑھانے کو تلخیاں
بے مہریوں کے ساتھ مدارا کبھی کبھی
رسوائیوں سے دور نہیں بے قراریاں
دل کو ہو کاش صبر کا یارا کبھی کبھی
قطرہ سے ایک موج یہ کہتی نکل گئی
ساحل سے مصلحت ہے کنارا کبھی کبھی
اے شاہد جمال کوئی شکل ہے کی ہو
تیری نظر سے تیرا نظارہ کبھی کبھی
ہنگام گریہ آہ سے ناداں اثرؔ حذر
اڑتا ہے اشک جیسے شرارہ کبھی کبھی
غزل
چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
اثر لکھنوی