چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا
کل رات میں بھی اس کی خیالوں میں آ گیا
جیسے کہ کھل اٹھے کوئی جاتی بہار میں
مردہ پڑا تھا میں مجھے چھو کر جلا دیا
اک روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے مرے چراغ
وہ وصل کے لئے مرے پہلو میں آ گیا
مدت کے بعد نیند کی لذت نہ پوچھئے
نشہ چڑھا ہوا تھا سو چڑھتا چلا گیا
غزل
چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا
رضی رضی الدین