EN हिंदी
چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا | شیح شیری
chupke se mujhko aaj koi ye bata gaya

غزل

چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا

رضی رضی الدین

;

چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا
کل رات میں بھی اس کی خیالوں میں آ گیا

جیسے کہ کھل اٹھے کوئی جاتی بہار میں
مردہ پڑا تھا میں مجھے چھو کر جلا دیا

اک روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے مرے چراغ
وہ وصل کے لئے مرے پہلو میں آ گیا

مدت کے بعد نیند کی لذت نہ پوچھئے
نشہ چڑھا ہوا تھا سو چڑھتا چلا گیا