چپکے چپکے ایک تو ٹیس آپ جمانی اوروں سے
تس الٹی ہم کو تہمت آ کے لگانی اوروں سے
ہم سے تو بس باندھے رکھتی شرم کی پٹی آنکھوں پر
چوری چوری محفل میں پر آنکھ لڑانی اوروں سے
اوروں کے تو ہم سے نہ کہنے ہم سے لے کر جی کی بات
جوں کی توں سب بات یہ کیوں جی جا کے سنانی اوروں سے
مجھ سے کہو ہو آہیں بھر بھر ہوک جگر میں اٹھتی ہے
اور یوں ہی در پردہ اپنی چاہ جتانی اوروں سے
لونگ کھلائیں ہم جو کبھی تو اس کو ڈالو منہ سے تھوک
اور یہ کیوں جی روز مفرح چھینکے کھانی اوروں سے
اوروں کے تو گھر میں جا کر دوڑ کے پینی آپ شراب
میرے آگے پی نہیں سکتے مانگ کے پانی اوروں سے
ہم جو پڑھیں کوئی شعر تو کہنا شعر سے ہم کو ذوق نہیں
میرؔ حسن کے گھر میں کہانی جا کے پڑھانی اوروں سے
پردہ اس میں کیا ہے پیارے دنیا میں معروفؔ ہے یہ
عاشق سے ہے بیر تجھے اور الفت جانی اوروں سے
غزل
چپکے چپکے ایک تو ٹیس آپ جمانی اوروں سے
معروف دہلوی