چپ تھے جو بت سوال بہ لب بولنے لگے
ٹھہرو کہ قوس برق و لہب بولنے لگے
ویرانیوں میں ساز طرب بولنے لگے
جیسے لہو میں آب عنب بولنے لگے
اک رشتہ احتیاج کا سو روپ میں ملا
سو ہم بھی اب بہ طرز طلب بولنے لگے
خاموش بے گناہی اکیلی کھڑی رہی
کچھ بولنے سے پہلے ہی سب بولنے لگے
پہلے تم اس موبائل کو بے رابطہ کرو
کم ظرف ہے نہ جانے یہ کب بولنے
سر پیٹتا ہے ناطقہ حیراں ہے آگہی
پرزے مشین کے بھی ادب بولنے لگے
برہم تھے خواب نیند کی رتیلی اوس پر
اس پر ستم کہ طائر شب بولنے لگے
ہے وقت یا شعور یہ گزرا ہے جو ابھی
تم بھی خلشؔ زبان عجب بولنے لگے
غزل
چپ تھے جو بت سوال بہ لب بولنے لگے
بدر عالم خلش