چپ کھڑے ہیں درمیان کعبہ و بتخانہ ہم
کس طرف جائیں بتا اے جلوۂ جانانہ ہم
عظمت رفتہ سے اتنے ہو گئے بیگانہ ہم
بن گئے ہیں اپنی ہی نظروں میں آج افسانہ ہم
ہائے یہ مجموعۂ سر مستی و کیف و خمار
تک رہے ہیں تیری آنکھوں کو لئے پیمانہ ہم
بے وفا شمعیں بہر سو ڈھونڈھتی ہیں اب ہمیں
مٹ گئے جب صورت خاکستر پروانہ ہم
ہیں نگاہوں میں ابھی تک طور کی رسوائیاں
اب کہاں جرأت کہ دیکھیں جلوۂ جانانہ ہم
آرزوئے سجدہ ریزی حد سے بڑھ جاتی ہے جب
سر ترے قدموں پہ رکھ دیتے ہیں بیتابانہ ہم
پائے ساقی تک جبین شوق کو پہنچا دیا
تیرے ممنون کرم ہیں لغزش مستانہ ہم
غزل
چپ کھڑے ہیں درمیان کعبہ و بتخانہ ہم
اعجاز وارثی