چپ کے صحرا میں فقط ایک صدا کون ہوں میں
اے خدا تو ہی بتا مجھ کو ذرا کون ہوں میں
ڈوبتا ہوں تو ابھر جاتا ہوں لمحہ بھر میں
کس کے ہونٹوں پہ ہوں میں حرف دعا کون ہوں میں
اپنی ہی ذات کی تشریح نہیں کر سکتا
روک لیتی ہے مجھے میری انا کون ہوں میں
وصل نے میرے تشخص کو سنبھالے رکھا
ہجر و وحشت سے کبھی پوچھ ذرا کون ہوں میں
میں زمیں زاد بھلا بیٹھا ہوں منصب اپنا
ہے خبر اپنی نہ اپنا ہے پتہ کون ہوں میں
اس کے جانے سے یہ محسوس ہوا ہے ذاکرؔ
ہے مری روح الگ جسم جدا کون ہوں میں
غزل
چپ کے صحرا میں فقط ایک صدا کون ہوں میں
ذاکر خان ذاکر