چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے
پتھرائی ہوئی آنکھ میں شعلہ بھی کہاں ہے
سوکھے ہوئے پتوں کو جو روندو تو صدا دیں
پستے ہوئے انسان کے منہ میں تو زباں ہے
عظمت کی بلندی پہ میں جس سمت گیا ہوں
دیکھا ہے ترے پاؤں کا پہلے ہی نشاں ہے
آندھی جو چلی ساتھ اڑا لے گئی سب کو
کیا جانیے اس دشت میں اب کون کہاں ہے
روکیں بھی تو خاورؔ اسے روکا نہیں جاتا
جھونکے پہ مجھے عمر گریزاں کا گماں ہے
غزل
چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے
خاقان خاور