چپ چاپ نکل آئے تھے صحرا کی طرف ہم
چلتے ہوئے کیا دیکھتے دنیا کی طرف ہم
پامال کئے جاتی ہے اس واسطے دنیا
بیٹھے ہیں ترے نقش کف پا کی طرف ہم
کس پیاس سے خالی ہوا مشکیزہ ہمارا
دریا سے جو اٹھ آئے ہیں صحرا کی طرف ہم
کیا چاہتی ہے نیت بازار زمانہ
کھنچتے چلے جاتے ہیں جو اشیا کی طرف ہم
یہ اجنبی لوگوں کی ذرا بھیڑ چھٹے تو
جائیں گے کسی اپنے شناسا کی طرف ہم
گوہرؔ یہ زمیں ہم کو بہت یاد کرے گی
اٹھ جائیں گے جب عالم بالا کی طرف ہم
غزل
چپ چاپ نکل آئے تھے صحرا کی طرف ہم
افضل گوہر راؤ