EN हिंदी
چشم بے کیف میں کارندۂ منظر نہ رہا | شیح شیری
chshme-e-be-kaif mein karinda-e-manzar na raha

غزل

چشم بے کیف میں کارندۂ منظر نہ رہا

عامر نظر

;

چشم بے کیف میں کارندۂ منظر نہ رہا
تشنہ لب خواب رہا سرخ سمندر نہ رہا

تیرگی رنگ طلسمات کو اوڑھے آئی
مرحلہ یہ بھی دبے خوف کے باہر نہ رہا

اجنبیت کا تماشہ نہ ہو کیسے عریاں
دیدۂ شدت احساس برابر نہ رہا

کوئی لمحہ تو سکوت شب غم ٹھہرے بھی
وادئ سرخ میں اب درد کا لشکر نہ رہا

تشنگی زور طلب تاب سے بول اٹھی ہے
چند قطرے ہی سہی کوئی شناور نہ رہا

تھی شکن لمحۂ موجود کی پیشانی پر
پھر بھی مایوس قد پائے پیمبر نہ رہا

ایک بھی بوند کی قربانی بہت تھی عامرؔ
کوئی آثار حیات ابر افق پر نہ رہا