چشم بے کیف میں کارندۂ منظر نہ رہا
تشنہ لب خواب رہا سرخ سمندر نہ رہا
تیرگی رنگ طلسمات کو اوڑھے آئی
مرحلہ یہ بھی دبے خوف کے باہر نہ رہا
اجنبیت کا تماشہ نہ ہو کیسے عریاں
دیدۂ شدت احساس برابر نہ رہا
کوئی لمحہ تو سکوت شب غم ٹھہرے بھی
وادئ سرخ میں اب درد کا لشکر نہ رہا
تشنگی زور طلب تاب سے بول اٹھی ہے
چند قطرے ہی سہی کوئی شناور نہ رہا
تھی شکن لمحۂ موجود کی پیشانی پر
پھر بھی مایوس قد پائے پیمبر نہ رہا
ایک بھی بوند کی قربانی بہت تھی عامرؔ
کوئی آثار حیات ابر افق پر نہ رہا
غزل
چشم بے کیف میں کارندۂ منظر نہ رہا
عامر نظر