چوٹ دل پر لگے اور آہ زباں سے نکلے
درد اٹھے ہے کہاں اور کہاں سے نکلے
پیار ہے اس کو اگر مجھ سے تو انجام یہ ہو
گھر جلے میرا دھواں اس کے مکاں سے نکلے
سی لیا ہم نے تو الفت میں لبوں کو اپنے
اب کسی درد کی آواز کہاں سے نکلے
مجھ کو مرنے کا نہیں خوف تمنا یہ ہے
روح محبوب کی بانہوں میں یہاں سے نکلے
چوک آنکھوں سے ہوئی ہے یہی سچ ہے ورنہ
کوئی گھائل نہ ہو جب تیر کماں سے نکلے
ٹھوکریں کھا کے بھی سنبھلے نہ زمانے کی ہم
ہاتھ ملتے ہوئے چپ چاپ جہاں سے نکلے
ہم کو ذرا ہی سمجھتے تھے ستارے لیکن
بن کے ہم چاند ارونؔ سارے جہاں سے نکلے
غزل
چوٹ دل پر لگے اور آہ زباں سے نکلے
ارون کمار آریہ