چتون کی کہوں کہ اشارات کی گرمی
ہے نام خدا اس میں ہر ایک بات کی گرمی
رونے سے مرے اس کو عرق آ گیا یارو
سچ ہے کہ بری ہوتی ہے برسات کی گرمی
ٹک پھول چھوا تھا سو نزاکت سے کئی بار
رہ رہ کے دکھائی مجھے گل ہات کی گرمی
کھلواتے ہی بندوں کے بدن گرم ہو آیا
شاید کہ لگی اس کو مرے ہات کی گرمی
جلتا ہوں میں اور شعلے نہیں دیتے دکھائی
ہے عشق میں یارو یہ طلسمات کی گرمی
رہنا ہے کوئی دن تو سمجھ جائیو اے دل
یاں پھر وہی ٹھہری ہے ملاقات کی گرمی
گرمی تھی کہیں آہ ہم افسردہ دلوں میں
ساقی کی فقط ہے یہ عنایات کی گرمی
آتے ہی جو تم میرے گلے لگ گئے واللہ
اس وقت تو اس گرمی نے سب مات کی گرمی
کہتا ہے وہ جس دم کہ چلو ہم سے نہ بولو
اس بات میں ہے اور ہی ایک بات کی گرمی
سب پوچ ہے ظاہر کی یہ شوخی و شرارت
معشوق میں جب تک کہ نہ ہو ذات کی گرمی
تم غصہ ہو یا قہر ہو آتش ہو غضب ہو
اب ہم نے یہ سب دل پہ مساوات کی گرمی
یا حضرت دل تم تو بڑے صاحب دل تھے
رکھتے تھے بہت اپنے کمالات کی گرمی
ایک ہی نگہ گرم سے بس ہو گئے تم سرد
اب کہئے کہاں ہے وہ کرامات کی گرمی
یوں گرمی صحبت تو بہت ہوگی نظیرؔ آہ
پر یار نہ بھولے گی مجھے رات کی گرمی
غزل
چتون کی کہوں کہ اشارات کی گرمی
نظیر اکبرآبادی