چلچلاتی دھوپ نے غصہ اتارا ہر جگہ
چڑھ گیا اونچائی پر ذہنوں کا پارا ہر جگہ
اس زمیں پر ہم جہاں بھی ہیں وہاں تاراج ہیں
آج کل گردش میں ہے اپنا ستارا ہر جگہ
اپنی کیا گنتی فرشتے بھی وہاں مارے گئے
خواہشوں نے مینکا کا روپ دھارا ہر جگہ
مانگ لیتی ہے ہوا اچھے مواقع دیکھ کر
اک نہ اک مٹھی میں رہتا ہے شرارا ہر جگہ
غرق طوفانوں میں کر دو یا بھنور میں ڈال دو
ہمتوں کے ہاتھ چھوتے ہیں کنارا ہر جگہ
تم نہیں بدلے مہابھارت کے اندھے بادشاہ
ہر جگہ ثابت تھے ہم تم نے نکارا ہر جگہ
غزل
چلچلاتی دھوپ نے غصہ اتارا ہر جگہ
ظفر صہبائی