EN हिंदी
چیز جو بھول کر گئی ہوئی تھی | شیح شیری
chiz jo bhul kar gai hui thi

غزل

چیز جو بھول کر گئی ہوئی تھی

زہرا قرار

;

چیز جو بھول کر گئی ہوئی تھی
لوٹنے پر وہیں پڑی ہوئی تھی

باپ اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے
اپنے پیروں پہ خود کھڑی ہوئی تھی

کتنے گھنٹوں کا خواب دیکھنا ہے
ہاتھ میں تو گھڑی بندھی ہوئی تھی

میں نے احباب سے کنارہ کیا
مجھ کو پیسوں کی جب کمی ہوئی تھی

کئی سالوں میں برقعہ چھوٹا تھا
بڑی مشکل سے روشنی ہوئی تھی

سرخ رو کس طرح نہ ہوتے وہ
ساتھ بچوں کے ماں لگی ہوئی تھی

تیری ٹینشن میں پینا بھول گئی
چائے تو سامنے رکھی ہوئی تھی