چیز جو بھول کر گئی ہوئی تھی
لوٹنے پر وہیں پڑی ہوئی تھی
باپ اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے
اپنے پیروں پہ خود کھڑی ہوئی تھی
کتنے گھنٹوں کا خواب دیکھنا ہے
ہاتھ میں تو گھڑی بندھی ہوئی تھی
میں نے احباب سے کنارہ کیا
مجھ کو پیسوں کی جب کمی ہوئی تھی
کئی سالوں میں برقعہ چھوٹا تھا
بڑی مشکل سے روشنی ہوئی تھی
سرخ رو کس طرح نہ ہوتے وہ
ساتھ بچوں کے ماں لگی ہوئی تھی
تیری ٹینشن میں پینا بھول گئی
چائے تو سامنے رکھی ہوئی تھی
غزل
چیز جو بھول کر گئی ہوئی تھی
زہرا قرار