چیخ کی اور میں کھنچا جاؤں
گھپ اندھیروں میں ڈوبتا جاؤں
کب سے پھرتا ہوں اس توقع پر
خود کو شاید کہیں میں پا جاؤں
روح تک بجھ چکی ہے مدت سے
تو جو چھو لے تو جگمگا جاؤں
لمحہ لمحہ یہ چھانو گھٹتی ہے
پتہ پتہ میں ٹوٹتا جاؤں
دھوپ پی کر تمام صحرا کی
ابر بن کر میں خود پہ چھا جاؤں
دکھ سے کیسا بھرا ہوا ہے دل
اس کو سوچوں تو سوچتا جاؤں
ایک پتہ ہوں شاخ سے بچھڑا
جانے بہہ کر میں کس دشا جاؤں
جی میں آتا ہے چھوڑ دوں یہ زمیں
آسمانوں میں جا سما جاؤں
غزل
چیخ کی اور میں کھنچا جاؤں
آلوک مشرا