چھو سکوں تجھ کو یہ اوقات کبھی تو ہوگی
اور میسر بھی تری ذات کبھی تو ہوگی
چاند کے ساتھ میں جو چھت پہ کبھی گزرے گی
ساتھ تم اور وہ حسیں رات کبھی تو ہوگی
ایک مدت سے یہی آس لیے بیٹھا ہوں
تجھ میں بھی شدت جذبات کبھی تو ہوگی
ہجر جاناں میں بھی آنسو نہیں آئے میرے
خشک صحراؤں میں برسات کبھی تو ہوگی
جگنوؤں کا تو کوئی کام اجالوں میں نہیں
ان سے روشن شب ظلمات کبھی تو ہوگی
اس لیے ختم کہانی نہیں ہونے دیتا
اس کے قصے میں مری بات کبھی تو ہوگی
غزل
چھو سکوں تجھ کو یہ اوقات کبھی تو ہوگی
نادم ندیم