چھٹ گئیں نبضیں رکی سانسیں نظر پتھرا گئی
موت کیوں کہئے اسے بیمار کو نیند آ گئی
در حقیقت آپ تھے یا آپ کا عکس جمیل
واقعی میری نظر کیا آج دھوکا کھا گئی
میں نے چاہا تھا کہ پھولوں سے بسا لوں پیرہن
بوئے گل بھی میرے دامن سے مگر کترا گئی
ہم کو ترک آرزو کا آج یہ حاصل ملا
آرزو کا نام لے کر آرزو شرما گئی
بج اٹھا ساز طرب اور جل اٹھے دل کے چراغ
اتفاقاً بھی اگر ان سے نظر ٹکرا گئی
بن گئی وجہ فروغ انجمن شمع حیات
زندگی تھی آپ کی اور آپ کے کام آ گئی
اس نگاہ ملتفت کا مجھ سے پھرنا تھا جلیلؔ
آرزوؤں کے گلستاں میں خزاں سی چھا گئی

غزل
چھٹ گئیں نبضیں رکی سانسیں نظر پتھرا گئی
جلیل شیر کوٹی