چھپ چھپ کے اب نہ دیکھ وفا کے مقام سے
گزرا ہمارا درد دوا کے مقام سے
لوٹ آئے ہم تو عرض دعا کے مقام سے
ہر شے تھی پست ان کی رضا کے مقام سے
اے مطربان کنج چمن ہوشیار باش
صرصر گزر رہی ہے صبا کے مقام سے
اللہ رے خود فریبیٔ اہل حرم کہ اب
بندے بھی دیکھتے ہیں خدا کے مقام سے
جب دل نے خیر و شر کی حقیقت کو پا لیا
ہر جرم تھا بلند سزا کے مقام سے
اے وائے سیفؔ لذت نیرنگیٔ حیات
مر کر اٹھیں گے بیم و رجا کے مقام سے
غزل
چھپ چھپ کے اب نہ دیکھ وفا کے مقام سے
سیف الدین سیف