EN हिंदी
چھوڑ کر کاشانوں کو طائر گئے | شیح شیری
chhoD kar kashanon ko tair gae

غزل

چھوڑ کر کاشانوں کو طائر گئے

صاحبہ شہریار

;

چھوڑ کر کاشانوں کو طائر گئے
روکنا چاہا تھا پر کیوں کر گئے

پتہ پتہ بھی اڑا کر لے گئی
آندھی کے ہم رہ سبھی منظر گئے

ہاں وہی موسم تھا اور ہم بھی وہی
راہ تکتے تھے جو وہ بے گھر گئے

برف تھی کہرا بھی تھا اور خامشی
دیکھ کر وہ حادثہ ہم ڈر گئے

روشنی کا ایک ہیولیٰ ساتھ تھا
جو ہوا کے ساتھ تھے خنجر گئے