چھوڑ کر کاشانوں کو طائر گئے
روکنا چاہا تھا پر کیوں کر گئے
پتہ پتہ بھی اڑا کر لے گئی
آندھی کے ہم رہ سبھی منظر گئے
ہاں وہی موسم تھا اور ہم بھی وہی
راہ تکتے تھے جو وہ بے گھر گئے
برف تھی کہرا بھی تھا اور خامشی
دیکھ کر وہ حادثہ ہم ڈر گئے
روشنی کا ایک ہیولیٰ ساتھ تھا
جو ہوا کے ساتھ تھے خنجر گئے
غزل
چھوڑ کر کاشانوں کو طائر گئے
صاحبہ شہریار