چھوڑ کر گھر کی فضا رعنائیاں پچھتا گئیں
راستوں کی دھول میں آرائشیں کجلا گئیں
کس نے پھیلا دی مرے آنگن میں چادر دھوپ کی
میرے مہتابوں کی ساری صورتیں کمھلا گئیں
اپنا تنہا عکس پا کر میں نے کنکر پھینک دی
سطح ساحل پر کئی پرچھائیاں لہرا گئیں
مدتوں کے بعد جی چاہا تھا چھت پر سوئیے
رات پہلو میں نہ لیٹی تھی کہ بوندیں آ گئیں
کوچہ کوچہ کاٹتے پھرتے ہیں یادوں کا لکھا
دل کو جانے کیا تری رسوائیاں سمجھا گئیں
دور تک کوئی نہ آیا ان رتوں کو چھوڑنے
بادلوں کو جو دھنک کی چوڑیاں پہنا گئیں
شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ
غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں
غزل
چھوڑ کر گھر کی فضا رعنائیاں پچھتا گئیں
زبیر رضوی