چھوڑ کر چل دیا غربت میں وہی دل مجھ کو
ایک ہمدرد ملا تھا جو بہ مشکل مجھ کو
اب سوا غم نہیں کچھ زیست کا حاصل مجھ کو
خوف گرداب نہ درکار ہے ساحل مجھ کو
دل بھی قسام ازل نے وہ دیا قسمت سے
جس نے دنیا میں نہ رکھا کسی قابل مجھ کو
مجھ کو کیا غم جو ہیں تاریک عدم کے رستے
داغ دل ہوں گے چراغ رہ منزل مجھ کو
منزلیں عشق کی مشکل تھیں خطرناک بھی تھیں
مل گیا دل سا مگر رہبر کامل مجھ کو
حسرت و یاس و الم رہ گئے بیرون لحد
قافلے والوں نے چھوڑا سر منزل مجھ کو
فکر کچھ شعر و سخن کی بھی کروں میں شعلہؔ
دیں جو فرصت کبھی افکار و مشاغل مجھ کو

غزل
چھوڑ کر چل دیا غربت میں وہی دل مجھ کو
شعلہ کراروی