چھوڑ کر ایسے گیا ہے چھوڑنے والا مجھے
دوستو اس نے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا مجھے
بول بالا اس قدر خاموشیوں کا ہے یہاں
کاٹنے کو دوڑتا ہے میرا ہی کمرہ مجھے
ہاں وہی تصویر جو کھینچی تھی میں نے ساتھ میں
ہاں وہی تصویر کر جاتی ہے اب تنہا مجھے
بات تو یہ بعد کی ہے کچھ بنوں گا یا نہیں
کوزہ گر تو چاک پہ تو رقص کرواتا مجھے
بس اسی امید پہ ہوتا گیا برباد میں
گر کبھی بکھرا تو آ کر تو سنبھالے گا مجھے
آٹھویں شب بھی محض کچھ گھنٹوں کی میہمان ہے
گر منانا ہوتا تو اب تک منا لیتا مجھے
غزل
چھوڑ کر ایسے گیا ہے چھوڑنے والا مجھے
عکس سمستی پوری