چھوڑ جائیں گے قافلے والے
ہم تو ہیں پیڑ راستے والے
خواب پہلی اذان پر ٹوٹا
ہم تھے دریا میں کودنے والے
دیکھ آیا ہوا ہے آنکھوں میں
زہر کانوں میں گھولنے والے
آپ سے اپنا اک تعلق ہے
ہم نہیں لوگ واسطے والے
اک زمانہ تھا عید آنے پر
ہم مناتے تھے روٹھنے والے
مجھ کو تسلیم کیوں نہیں کرتے
میری تصویر چومنے والے
شرم سے آپ کی جھکی پلکیں
ورنہ تو ہم تھے ڈوبنے والے
ہر قدم پھونک پھونک رکھنا ہے
دیں نہ دیں ساتھ مشورے والے
ڈھیل دینے سے بچ گئے محبوب
ورنہ رشتے تھے ٹوٹنے والے

غزل
چھوڑ جائیں گے قافلے والے
خالد محبوب