EN हिंदी
چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں | شیح شیری
chheD ke saz-e-zargari KHalq-e-KHuda hai raqs mein

غزل

چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں

رضی اختر شوق

;

چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں
یوں کہ تمام شہر ہی ڈوب چلا ہے رقص میں

یہ جو نشہ ہے رقص کا اک مری ذات تک نہیں
کوزہ بہ کوزہ گل بہ گل ساتھ خدا ہے رقص میں

کوئی کسی سے کیا کہے کوئی کسی کی کیوں سنے!
سب کی نظر ہے تال پر سب کی انا ہے رقص میں

حسن کی اپنی اک نمو عشق کی اپنی ہاؤ ہو
ایک ہوا ہے رنگ میں ایک ہوا ہے رقص میں

کون یہ کہہ کے چل دیا ہو تری بستیوں کی خیر
آج ہوا بھی تیز ہے اور دیا ہے رقص میں

کوئی سواد وقت پر کوئی سرود ذات تک
پاؤں ہے سب کا ایک سا پھر بھی جدا ہے رقص میں

برج شہی سے دیکھنا ایسے فشار وقت میں
خاک بہ سر غزل بہ لب کون گدا ہے رقص میں