چھٹی ہے راہ سے گرد ملال میرے لیے
کہ جھومتی ہے ہوا ڈال ڈال میرے لیے
ہوا ہے کیا کروں جینا محال میرے لیے
مرے ہی شہر سے مجھ کو نکال میرے لیے
کوئی بھی کام نہیں ہو سکا ہے فرصت میں
کہ کم پڑے ہیں بہت ماہ و سال میرے لیے
وہ کون ہے جو مری آرتی اتارے گا
سجا کے رکھا ہے کس نے یہ تھال میرے لیے
میں پھونک پھونک کے چلتا ہوں راہ میں اس کی
قدم قدم پہ بچھائے ہیں جال میرے لیے
کہیں پہ ہو گئے پژمردہ پھول آنگن میں
ہوا ہے سبزہ کہیں پائمال میرے لیے
کھلا یہ راز رہائی کے بعد ہی مجھ پر
بنایا اس نے مجھے یرغمال میرے لیے
مرا دماغ ہے ماؤف دل اداس بہت
ہوا ہے جسم بھی میرا نڈھال میرے لیے
ہوئے ہیں راستے مسدود کیوں مرے ہمدمؔ
جنوب میرے لیے تھا شمال میرے لیے
غزل
چھٹی ہے راہ سے گرد ملال میرے لیے
ہمدم کاشمیری