EN हिंदी
چھاؤں مل جائے تو کم دام میں بک جاتی ہے | شیح شیری
chhanw mil jae to kam dam mein bik jati hai

غزل

چھاؤں مل جائے تو کم دام میں بک جاتی ہے

منور رانا

;

چھاؤں مل جائے تو کم دام میں بک جاتی ہے
اب تھکن تھوڑے سے آرام میں بک جاتی ہے

آپ کیا مجھ کو نوازیں گے جناب عالی
سلطنت تک مرے انعام میں بک جاتی ہے

شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے

وہ سیاست کا علاقہ ہے ادھر مت جانا
آبرو کوچۂ بدنام میں بک جاتی ہے