چھاؤں مل جائے تو کم دام میں بک جاتی ہے
اب تھکن تھوڑے سے آرام میں بک جاتی ہے
آپ کیا مجھ کو نوازیں گے جناب عالی
سلطنت تک مرے انعام میں بک جاتی ہے
شعر جیسا بھی ہو اس شہر میں پڑھ سکتے ہو
چائے جیسی بھی ہو آسام میں بک جاتی ہے
وہ سیاست کا علاقہ ہے ادھر مت جانا
آبرو کوچۂ بدنام میں بک جاتی ہے
غزل
چھاؤں مل جائے تو کم دام میں بک جاتی ہے
منور رانا