چھاؤں کی شکل دھوپ کی رنگت بدل گئی
اب کے وہ لو چلی ہے کہ صورت بدل گئی
ہنسنا ہنسانا اپنا مشینی عمل ہوا
بدلی ہوائے شہر تو عادت بدل گئی
اچھا سا سوٹ جسم پر اپنے سجا کے وہ
خوش ہے کہ جیسے گھر کی بھی حالت بدل گئی
سر کو چھپایا پاؤں بھی کھلنے نہیں دیا
خواہش بڑھی تو اپنی ضرورت بدل گئی
نظارۂ نگاہ ہے یہ جلتا بجھتا دن
کچھ غم نہیں جو رات کی دعوت بدل گئی
اب گفتگو میں بیچ سے غائب ہے آدمی
ہم تک تو آتے آتے روایت بدل گئی
غزل
چھاؤں کی شکل دھوپ کی رنگت بدل گئی
فاروق شفق