چہروں کو تو پڑھتے ہیں محبت نہیں کرتے
کیا لوگ ہیں زخموں کی حمایت نہیں کرتے
زنجیر کی جھنکار سے آباد ہیں زنداں
ہم لذت گفتار کی حسرت نہیں کرتے
خوش رنگ اجالوں کی برستی ہوئی بوندیں
گرتی ہوئی دیوار سے نفرت نہیں کرتے
پتھر کی فصیلوں میں انہیں نسب کیا جائے
جو اپنی روایت سے بغاوت نہیں کرتے
وہ میری طلب ہو کہ ترا لمس بدن ہو
نشے کبھی اندازۂ وحشت نہیں کرتے
غزل
چہروں کو تو پڑھتے ہیں محبت نہیں کرتے
جاذب قریشی