EN हिंदी
چہرے سے کب عیاں ہے مرے اضطرار بھی | شیح شیری
chehre se kab ayan hai mere iztirar bhi

غزل

چہرے سے کب عیاں ہے مرے اضطرار بھی

فخر عباس

;

چہرے سے کب عیاں ہے مرے اضطرار بھی
لیکن میں کر رہا ہوں ترا انتظار بھی

شاید تجھے ہو دسترس اپنے وجود پر
مجھ کو تو اس نظر پہ نہیں اختیار بھی

ملنے لگے ہیں اب تو خوشی کے لباس میں
غم ہائے زندگی کا ہے کوئی شمار بھی

ہو لاکھ خوبرو کوئی اپنے تئیں مگر
ہوتا ہے عکس و آئنے پر انحصار بھی

یکجا ہوئی ہیں حسن کی سب اس میں خوبیاں
چہرے پہ تازگی ہے نظر میں خمار بھی

لگتا ہے جان بوجھ کے ایسا کیا گیا
تو نے بنائی چیز کوئی پائیدار بھی

محظوظ ہم بھی ہوں گے جو فرصت کہیں ملے
گلشن بھی ہے گلاب بھی رنگ بہار بھی