چہرے پہ تھوڑی رکھی ہے
دل میں بیتابی رکھی ہے
اک دو دن سے جینے والو
ہم نے کافی جی رکھی ہے
دل کے شجر نے کس محنت سے
اک اک شاخ ہری رکھی ہے
وصل ہوا پر دل میں تمنا
جیسی تھی ویسی رکھی ہے
غیر کی کیا رکھے گا یہ درباں
ظالم نے کس کی رکھی ہے
ہوس میں کچھ بھی کر سکتے ہو
عشق میں پابندی رکھی ہے
رند کھڑے ہیں منبر منبر
اور واعظ نے پی رکھی ہے
راکھ قلندر کی لے جاؤ
آگ کہاں باقی رکھی ہے
اک تو باتونی ہے خاورؔ
اوپر سے پی بھی رکھی ہے

غزل
چہرے پہ تھوڑی رکھی ہے
شجاع خاور