چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے
دریا میں سارا زور ہی طغیانیوں کا ہے
خود رہبران قوم ہیں آلائشوں میں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
احباب میرے اس طرح مجھ پر ہیں طعنہ زن
جیسے خلوص نام ہی نادانیوں کا ہے
ساحل جو کٹ کے گرتے ہیں دریا کی گود میں
کیا یہ قصور بہتے ہوئے پانیوں کا ہے
انساں نہیں ہے کوئی بھی سائے ضرور ہیں
منظر ہر ایک شہر میں ویرانیوں کا ہے
کچھ خوف احتساب نہ سود و زیاں کا ڈر
یہ فائدہ تو بے سر و سامانیوں کا ہے
غزل
چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے
مرتضیٰ برلاس