EN हिंदी
چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا | شیح شیری
chehre pe koi rang shikayat ka nahin tha

غزل

چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا

ناصر راؤ

;

چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا
لیکن وو تبسم ہی محبت کا نہیں تھا

چھوڑا بھی مجھے اور بہت خوش بھی رہے ہو
افسوس کے میں آپ کی عادت کا نہیں تھا

وقتوں کے سیاہ رنگ سے ذروں پہ لکھا ہے
دنیا میں کوئی دور شرافت کا نہیں تھا

اب سر کو پٹکنے سے کوئی فیض نہیں ہے
مرنے کا تقاضہ تھا وو ہجرت کا نہیں تھا

دربار بھی تھا صاحب کردار بھی لیکن
ادنیٰ سا کوئی جذب سخاوت کا نہیں تھا