چہرے جتنے روپ بدلتا رہتا ہے
آئینے میں نقص نکلتا رہتا ہے
ذہن پہ بڑھتا جاتا ہے صدیوں کا دباؤ
لمحہ کیسے کرب میں ڈھلتا رہتا ہے
دل ہی نہیں روشن تو دن کیا نکلے گا
سورج تو تاریخ بدلتا رہتا ہے
یادوں تنہائی سے باتیں کرتی ہیں
سناٹا آواز بدلتا رہتا ہے
اک لمحے کی حقیقت تک جانے کے لیے
خواب کئی صدیوں تک چلتا رہتا ہے
غزل
چہرے جتنے روپ بدلتا رہتا ہے
ذکا صدیقی