EN हिंदी
چہرے جتنے روپ بدلتا رہتا ہے | شیح شیری
chehre jitne rup badalta rahta hai

غزل

چہرے جتنے روپ بدلتا رہتا ہے

ذکا صدیقی

;

چہرے جتنے روپ بدلتا رہتا ہے
آئینے میں نقص نکلتا رہتا ہے

ذہن پہ بڑھتا جاتا ہے صدیوں کا دباؤ
لمحہ کیسے کرب میں ڈھلتا رہتا ہے

دل ہی نہیں روشن تو دن کیا نکلے گا
سورج تو تاریخ بدلتا رہتا ہے

یادوں تنہائی سے باتیں کرتی ہیں
سناٹا آواز بدلتا رہتا ہے

اک لمحے کی حقیقت تک جانے کے لیے
خواب کئی صدیوں تک چلتا رہتا ہے