چونک اٹھا ہوں ترے لمس کے احساس کے ساتھ
آ گیا ہوں کسی صحرا میں نئی پیاس کے ساتھ
تب بھی مصروف سفر تھا میں ابھی کی مانند
یہ الگ بات کہ چلتا تھا کسی آس کے ساتھ
ڈھونڈھتا ہوں میں کوئی ترک تعلق کا جواز
اب گزارا نہیں ممکن دل حساس کے ساتھ
ہو رہا ہے اثر انداز مری خوشیوں پر
عمر کا رشتہ دیرینہ جو ہے یاس کے ساتھ
جسم کے شیش محل کی ہے یہی عمر جناب
جب تلک نبھتی رہے تیشہ انفاس کے ساتھ
غزل
چونک اٹھا ہوں ترے لمس کے احساس کے ساتھ
راغب اختر