چٹک کے غنچے سناتے ہیں کس کا افسانہ
یہ کون آ گیا گلشن میں بے حجابانہ
ہمارا حوصلۂ دل اگر سلامت ہے
بدل ہی دیں گے کسی دن نظام مے خانہ
نہ ہوش آئے گا اس کو ترے کرم کے بغیر
تری تلاش میں جو ہو گیا ہے دیوانہ
یہی ہے مصلحت وقت سب کو ٹھکرا دوں
مجھے سمجھتی ہے دنیا تو سمجھے دیوانہ
کسی کے حسن کی تابانیوں کا کیا کہنا
نگاہیں ہو گئیں قربان مثل دیوانہ
وہیں میں جوش حقیقت میں سر جھکا دوں گا
جہاں ملے گا مجھے نقش پائے جانانہ
نصیحت آپ کی ہے تو بجا مگر ناصح
وہ کیا کرے کہ ہے جس کا مزاج رندانہ
وہ جب سے میرے تصور میں آئے ہیں کشفیؔ
بنا ہوا ہے تجلی کدہ یہ کاشانہ

غزل
چٹک کے غنچے سناتے ہیں کس کا افسانہ
کشفی لکھنؤی