EN हिंदी
چشمک زنی میں کرتی نہیں یار کا لحاظ | شیح شیری
chashmak-zani mein karti nahin yar ka lihaz

غزل

چشمک زنی میں کرتی نہیں یار کا لحاظ

ارشد علی خان قلق

;

چشمک زنی میں کرتی نہیں یار کا لحاظ
نرگس کی آنکھ میں بھی نہیں ہے ذرا لحاظ

بے گالی اب تو بات بھی کرتے نہیں کبھی
وہ ابتدا میں کرتے تھے بے انتہا لحاظ

تنہا میں اور اتنے وہاں ہیں مرے رقیب
ناز و ادا غمزہ و شرم و حیا لحاظ

ساقی کی بے رخی کی کہاں تاب تھی مگر
پیر مغاں کی روح کا کرنا پڑا لحاظ

کیا وصف چشم یار کروں اس کے سامنے
نرگس سے ہے فقط مجھے اک آنکھ کا لحاظ

حرمت بڑی ہے اس کی نہ کر ہجو اس قدر
لازم ہے دخت رز کا تجھے واعظا لحاظ

نکلی نہ خم سے بزم جوانان‌‌ مست میں
پیر مغاں کا بنت عنب نے کیا لحاظ

پھر مجھ سے اس طرح کی نہ کیجے گا دل لگی
خیر اس گھڑی تو آپ کا میں کر گیا لحاظ

بے خود شراب شوق نے شب کو یہ کر دیا
ان کو رہا حجاب نہ مجھ کو رہا لحاظ

قربان اس حجاب کے اس شرم کے نثار
اتنا نہ عاشقوں سے کر اے مہ لقا لحاظ

محجوب ہے مزاج قلقؔ اپنا اس قدر
کرتے ہیں اپنے خورد کا بھی ہم برا لحاظ