چشم ظاہر بیں کو ہر اک پیش منظر آشنا
مل نہیں سکتا تجھے اب مجھ سے بہتر آشنا
ظرف تیرا مجھ پہ روشن ہو گیا ہے اس طرح
جس طرح قطرے سے ہوتا ہے سمندر آشنا
ٹوٹنا تقدیر اس کی توڑنا اس کا خمیر
غیر ممکن ہے نہ ہو شیشے سے پتھر آشنا
ہر طرح کے پھول ہیں دل کی زمیں پر دیکھیے
کس طرح کہہ دوں نہیں سینے سے خنجر آشنا
میں نے چٹانوں پہ گل بوٹے تراشے ہیں بہت
آپ کی نظریں بھی ہوتیں کاش منظر آشنا
جانتا ہوں کون کیا ہے آپ کیوں دیں مشورہ
میں لٹیروں سے بھی واقف اور رہبر آشنا
غزل
چشم ظاہر بیں کو ہر اک پیش منظر آشنا
عباس علوی